ختمِ نبوت پر چالیس (40) دلائل
ختمِ نبوت پر چالیس (40) دلائل | ||
قرآن مجید، احادیثِ صحیحہ اور اجماعِ اُمت سے ثابت ہے کہ سیدنا محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب: رسول اللہ ﷺ آخری نبی اور آخری رسول ہیں، آپ کے بعد قیامت تک نہ کوئی رسول پیدا ہو گا اور نہ کوئی نبی پیدا ہو گا۔ اس متفقہ اور ضروریاتِ دین میں سے اہم ترین عقیدے پر بے شمار دلائل میں سے چالیس(۴۰) دلائل درج ذیل ہیں: دلیل نمبر 1:اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ محمد (ﷺ) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں، لیکن آپ رسول اللہ اور خاتم النبیین ہیں۔ (الاحزاب: ۴۰) اس آیتِ کریمہ کی تشریح میں مشہور مفسرِ قرآن امام ابو جعفر محمد بن جریر بن یزید الطبری رحمہ اللہ (متوفی ۳۱۰ ھ) نے لکھا ہے: ’’بمعنی أنہ آخر النبیین‘‘ اس معنی میں کہ آپ آخری نبی ہیں۔ (تفسیر طبری، مطبوعہ دار الحدیث القاہرہ مصر ۹/ ۲۴۴) اس آیتِ کریمہ کی متفقہ تفسیر سے ثابت ہوا کہ خاتم النبیین کا مطلب آخر النبیین ہے اور اسی پر اہلِ اسلام کا اجماع ہے۔ تنبیہ: مدینہ منورہ والے قرآن مجید میں خاتِم النبیین (تاء کی زیر کے ساتھ) ہے اور یہ قراءت بھی اسی کی دلیل ہے کہ اس سے مراد آخر النبیین ہیں۔ ﷺ سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر ۴۰ کے مفہوم پر بیس سے زیادہ حوالوں (اصل مضمون دیکھیں) کے بعد عرض ہے کہ اس آیت کے علاوہ بہت سی دوسری آیات بھی ہیں، جن سے اہلِ اسلام ختمِ نبوت پر استدلال کرتے ہیں، جن کی تفصیل مطول کتابوں میں ہے اور اب احادیث صحیحہ متواترہ پیشِ خدمت ہیں: دلیل نمبر 2:سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے (بسندِ عامر بن سعد بن ابی وقاص) روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (سیدنا) علی بن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) سے فرمایا: أما ترضی أن تکون مني بمنزلۃ ھارون من موسی إلا أنہ لانبوۃ بعدي کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تمہارا میرے ساتھ وہ مقام ہو جو ہارون کا موسیٰ کے ساتھ تھا، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبوت نہیں ہے۔ (صحیح مسلم: ۳۲/ ۲۴۰۴، ترقیم دارالسلام: ۶۲۲۰) اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے اس حدیث کو پانچ تابعین نے روایت کیا ہے: عامر بن سعد بن ابی وقاص، سعید بن المسیب، مصعب بن سعد بن ابی وقاص، ابراہیم بن سعد بن ابی وقاص اور عائشہ بنت سعد بن ابی وقاص رحمہم اللہ اجمعین۔ مکمل (یعنی اصلی) مضمون کے لئے دیکھیں: ماہنامہ الحدیث شمارہ 100 صفحہ 22 تا 47 دلیل نمبر 7:سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : و أنا العاقب اور میں عاقب (آخری نبی) ہوں۔ (صحیح بخاری: ۳۵۳۲، ۴۸۹۶ والزہری صرح بالسماع عندہ، صحیح مسلم: ۲۳۵۴، دارالسلام: ۶۱۰۵، ۶۱۰۷) اس حدیث کے راوی امام ابن شہاب الزہری رحمہ اللہ (ثقہ بالاجماع اور جلیل القدر تابعی) نے العاقب کی تشریح میں فرمایا: ’’الذي لیس بعدہ نبي‘‘ وہ جس کے بعد کوئی نبی (پیدا) نہ ہو۔ (صحیح مسلم، ترقیم دارالسلام: ۶۱۰۷) اس حدیث کی تشریح میں امام سفیان بن حسین بن حسن الواسطی رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’آخر الأنبیاء‘‘ (تاریخ المدینۃ لعمر بن شبہ ۲/ ۶۳۱، وسندہ صحیح الیہ، المعجم الکبیر للطبرانی ۲/۱۲۲ ح ۱۵۲۶) دلیل نمبر 8:سیدنا حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وأنا المقفٰی اور میں مقفیٰ (آخری نبی ) ہوں۔ (شمائل الترمذی بتحقیقی: ۳۶۶۔۳۶۷ وسندہ حسن، کشف الاستار للبزار۳/ ۱۲۰ح ۲۳۷۸) دلیل نمبر 9:سیدنا ابو موسیٰ عبد اللہ بن قیس الاشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: أنا محمد و أنا أحمد و المقفیٰ ... میں محمد ہوں، میں احمد ہوں اور المقفیٰ ہوں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۱۱/ ۴۵۷ ح ۳۱۶۸۴ وسندہ صحیح، مسند احمد ۴/ ۳۹۵، صحیح مسلم: ۲۳۵۵، دارالسلام: ۶۱۰۸) نیز دیکھئے حدیث سابق : ۸ دلیل نمبر 10:عمرو بن عبد اللہ الحضرمی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ (سیدنا) ابو امامہ الباہلی (صدی بن عجلان) رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وأنا آخر الأنبیاء و أنتم آخر الأمم اور میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو۔ اس حدیث کے حوالہ کے لئے دیکھیں: ماہنامہ الحدیث شمارہ 100 صفحہ 22 تا 47 دلیل نمبر 11:شرحبیل بن مسلم اور محمد بن زیاد کی سند سے روایت ہے کہ سیدنا ابو امامہ الباہلی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: أیھا الناس! أنہ لانبي بعدي و لا أمۃ بعدکم اے لوگو! بے شک میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں۔ (المعجم الکبیر للطبرانی ۸/۱۳۶ ح ۷۵۳۵ وسندہ حسن، السنۃ لابن ابی عاصم ۲/۷۱۵۔ ۷۱۶ ح ۱۰۹۵، دوسرا نسخہ: ۱۰۶۱) اسماعیل بن عیاش کی یہ روایت شامیوں سے ہے اور انھوں نے سماع کی تصریح کر دی ہے ،لہٰذا یہ سند حسن لذاتہ اور صحیح لغیرہ ہے۔ دلیل نمبر 12:سیدنا ثوبان (مولیٰ رسول اللہ ﷺ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وإنہ سیکون في أمتي کذابون ثلاثون کُلھم یزعم أنہ نبي، و أنا خاتم النبیین، لا نبي بعدي اور بے شک میری اُمت میں تیس کذاب ہوں گے، ان میں سے ہر ایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ نبی ہے۔ اور میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ (سنن ابی داود: ۴۲۵۲ وسندہ صحیح) دلیل نمبر 13:سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لوکان نبي بعدي لکان عمر بن الخطاب اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتے تو وہ عمر بن خطاب ہوتے۔ (سنن ترمذی: ۳۶۸۶ وقال: ’’ھذا حدیث حسن غریب لا نعرفہ إلا من حدیث مشرح بن ھاعان‘‘ مسند احمد ۴/ ۱۵۴، مستدرک الحاکم ۳/ ۸۵ ح ۴۴۹۵ وقال: ’’ھذا الحدیث صحیح الإسناد ولم یخرجاہ‘‘ وقال الذہبی: صحیح) دلیل نمبر 14:ابو صالح السمان ذکوان الزیات رحمہ اللہ کی سند سے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: إن مثلي و مثل الأنبیاء من قبلي کمثل رجل بنی بیتًا فأحسنہ و أجملہ إلا موضع لبنۃ من زاویۃ فجعل الناس یطوفون بہ و یتعجبون لہ ویقولون : ھلا و ضعت ھذہ اللبنۃ؟ قال: فأنا اللبنۃ و أنا خاتم النبیین بے شک میری مثال اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال اس آدمی کی طرح ہے، جس نے بہت اچھے طریقے سے ایک گھر بنایا اور اسے ہر طرح سے مزین کیا، سوائے اس کے کہ ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ (چھوڑ دی) پھر لوگ اس کے چاروں طرف گھومتے ہیں اور (خوشی کے ساتھ) تعجب کرتے ہیں اور کہتے ہیں: یہ اینٹ یہاں کیوں نہیں رکھی گئی؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا: پس میں وہ (نبیوں کے سلسلے کی) آخری اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔ (صحیح بخاری: ۳۵۳۵، صحیح مسلم: ۲۲/ ۲۲۸۶، دارالسلام: ۵۹۶۱) مکمل (یعنی اصلی) مضمون کے لئے دیکھیں: ماہنامہ الحدیث شمارہ 100 صفحہ 22 تا 47 دلیل نمبر 17:عبد الرحمن بن یعقوب رحمہ اللہ کی سند سے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: فضّلت علی الأنبیاء بست: أعطیت جوامع الکلم و نصرت بالرعب و أحلّت لي الغنائم و جعلت لي الأرض طھورًا و مسجدًا و أرسلت إلی الخلق کافّۃ و ختم بي النبیون مجھے انبیاء پر چھ فضیلتیں عطا کی گئی ہیں:
(صحیح مسلم: ۵۲۳، دارالسلام: ۱۱۶۷، مسند احمد ۲/۴۱۱، سنن ترمذی: ۱۵۵۳، وقال: ھذا حدیث حسن صحیح) دلیل نمبر 18:ابو حازم سلمان الاشجعی الکوفی رحمہ اللہ کی سند سے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: وإنہ لا نبي بعدي اور بے شک میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ (صحیح بخاری: ۳۴۵۵، صحیح مسلم: ۱۸۴۲، دارالسلام: ۴۷۷۳) اور ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: کلما ذھب نبي خلفہ نبي وإنہ لیس کائنًا فیکم نبي بعدي جب بھی ایک نبی جاتا تو اس کے بعد دوسرا نبی آتا تھا اور میرے بعد تم میں کوئی نبی (پیدا) نہیں ہو گا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۱۵/۵۸ ح ۳۷۲۴۹ وسندہ صحیح) دلیل نمبر 19:عبد اللہ بن ابراہیم بن قارظ رحمہ اللہ کی سند سے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: فإني آخر الأنبیاء و إن مسجدي آخر المساجد پس بے شک میں آخری نبی ہوں اور بے شک میری مسجد آخری مسجد (ہے جسے کسی نبی نے خود تعمیر کیا ) ہے۔ (صحیح مسلم: ۵۰۷/۱۳۹۴، دارالسلام: ۳۳۷۶) آخر المساجد کی تشریح میں حافظ ابو العباس احمد بن عمر بن ابراہیم القرطبی رحمہ اللہ (متوفی ۶۵۶ھ) نے لکھاہے: ’’فربط الکلام بفاء التعلیل مشعرًا بأن مسجدہ إنما فضّل علی المساجد کلھا لأنہ متأخر عنھا و منسوب إلٰی نبي متأخر عن الأنبیاء کلھم فی الزمان.‘‘ پس آپ نے فاء تعلیل کے ساتھ یہ بتانے کے لئے کلام مربوط کیا کہ آپ کی مسجد اس وجہ سے تمام مساجد پر فضیلت رکھتی ہے، کیونکہ یہ ان کے بعد ہے اور تمام انبیاء کے بعد آنے والے نبی آخر الزمان کی طرف نسبت رکھتی ہے۔ (المفہم لما اشکل من تلخیص کتاب مسلم ۳/ ۵۰۶ ح ۱۲۴۶) قاضی عیاض المالکی اور محمد بن خلیفہ الوشتانی الابی دونوں نے اس حدیث سے یہ مراد لی کہ آپ ﷺ کی مسجد دوسری مسجدوں سے افضل ہے۔ (اکمال المعلم بفوائد مسلم ۴/ ۵۱۲، اکمال اکمال المعلم ۴/ ۵۰۹) آخر الانبیاء کی نسبت سے آخر المساجد کا صرف یہی مطلب ہے کہ آخر مساجد الانبیاء، اس کے علاوہ دوسرا کوئی مطلب ہو ہی نہیں سکتا اور نہ ایسا معنی سلف صالحین کے کسی مستند عالم سے ثابت ہے۔ دلیل نمبر 20:ابو سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف اور ابو عبد اللہ الاغر (دو تابعین) کی سند سے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: ’’فإن رسول اللہ ﷺ آخر الأنبیاء و إن مسجدہ آخر المساجد.‘‘ پس بے شک رسول اللہ ﷺ آخری نبی ہیں اور آپ کی مسجد (مساجد انبیاء میں سے ) آخری مسجد ہے۔ (صحیح مسلم: ۵۰۷/ ۱۳۹۴ ، دارالسلام: ۳۳۷۶، سنن نسائی : ۶۹۵ والکبریٰ لہ: ۶۸۴) نیز دیکھئے حدیث سابق : ۱۹ دلیل نمبر 21:امام سعید بن المسیب کی سند سے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لم یبق من النبوۃ إلا المبشرات نبوت میں سے سوائے مبشرات کے کچھ بھی باقی نہیں رہا۔ لوگوں نے کہا: مبشرات کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا: الرؤیا الصالحۃ نیک خواب۔ (صحیح بخاری : ۶۹۹۰) دلیل نمبر 22:صعصعہ بن مالک رحمہ اللہ کی سند سے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: إنہ لیس یبقی بعدي من النبوۃ إلاالرؤیا الصالحۃ بے شک میرے بعد نبوت میں سے اچھے خواب کے علاوہ کچھ بھی باقی نہیں رہا۔ (موطأ امام مالک ، روایۃ یحییٰ ۲/ ۹۵۶ ۔ ۹۵۷ح ۱۸۴۷ ، وسندہ صحیح ، روایۃ ابن القاسم بتحقیقی ص ۲۱۵ح ۱۲۷، سنن ابی داود : ۵۰۱۷ وصححہ الحاکم ۴/ ۳۹۰۔ ۳۹۱ ح ۸۱۷۶ ووافقہ الذہبی) یہ حدیث سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے متواتر ہے۔ دلیل نمبر 23:سیدنا جابر بن عبد اللہ الانصاری رضی اللہ عنہ سے ایک روایت ہے ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی ﷺ نے ایک بہترین اور مکمل گھر (محل) کی مثال کو نبیوں کی مثال قرار دیا۔ جس کی ایک اینٹ کی جگہ خالی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: فأنا موضع اللبنۃ ، جئت فختمت الأنبیاء علیھم السلام پس میں اس اینٹ کی جگہ ہوں، میں آیا تو انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ ختم کر دیا۔ (صحیح مسلم : ۲۲۸۷، دارالسلام: ۵۹۶۳) یہ حدیث مختصراً صحیح بخاری (۳۵۳۴) میں بھی موجود ہے۔ دلیل نمبر 24:سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: إن الرسالۃ والنبوۃ قد انقطعت فلا رسول بعدي ولا نبيّ بے شک رسالت اور نبوت منقطع (یعنی ختم ) ہوگئی ، پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہو گا اور نہ کوئی نبی ہوگا۔ (سنن ترمذی : ۲۲۷۲ وقال: ’’<span class=arabic>ھذا حدیث صحیح غریب من ھذا الوجہ</span>‘‘ وسندہ صحیح ، مسند احمد ۳/ ۲۶۷ وصححہ الحاکم ۴/ ۳۹۱ علی شرط مسلم ووافقہ الذہبی) اس صحیح حدیث پر قادیانیوں کی جرح کے جواب کے لئے دیکھئے میری کتاب : تحقیقی مقالات (۳/ ۴۸۵۔ ۴۸۹) دلیل نمبر 25:صحابیہ ام کرز الکعبیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ذھبت النبوۃ و بقیت المبشرات نبوت ختم ہو گئی اور مبشرات (نیک خواب) باقی رہ گئے۔ (مسند الحمیدی بتحقیقی : ۳۴۹ وسندہ حسن، سنن ابن ماجہ :۳۸۹۶ ، مسند احمد ۶/ ۳۸۱، سنن دارمی ۲/ ۱۲۳ح ۲۱۴۴، صحیح ابن حبان الاحسان : ۶۰۱۵ وغیرہ) بوصیری نے زوائد ابن ماجہ میں کہا: ’’إسنادہ صحیح و رجالہ ثقات‘‘ (ح۳۸۹۶) دلیل نمبر 26:سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما دونوں جب سیدہ ام ایمن (برکہ رضی اللہ عنہا) حاضنۃ النبی ﷺ کے پاس گئے تو ام ایمن رضی اللہ عنہا رونے لگیں اور فرمایا: ’’ولکن أبکی أن الوحي قد انقطع من السماء.‘‘ اور لیکن میں روتی ہوں کہ آسمان سے وحی کا آنا منقطع (ختم ) ہو گیا ہے۔ (صحیح مسلم: ۲۴۵۴، دارالسلام: ۶۳۱۸، سنن ابن ماجہ: ۱۶۳۵) پھر وہ دونوں بھی ام ایمن رضی اللہ عنہا کے ساتھ رونے لگے۔ رضی اللہ عنہم اجمعین دلیل نمبر 27:سیدنا عبد اللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کے بیٹے ابراہیم(رضی اللہ عنہ) کے بارے میں فرمایا: ’’مات صغیرً ا و لو قضي أن یکون بعد محمد ﷺ نبی عاش ابنہ و لکن لا نبي بعدہ‘‘ وہ بچپن میں ہی وفات پا گئے اور اگر محمد ﷺ کے بعد کوئی نبی ہوتا تو آپ کے بیٹے زندہ رہتے، لیکن آپ کے بعد کوئی نبی نہیں۔ (صحیح بخاری : ۶۱۹۴) دلیل نمبر 28:سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے (مرضِ وفات میں) فرمایا: أیھا الناس! إنہ لم یبق من مبشرات النبوۃ إلا الرؤیا الصالحۃ یراھا المسلم أوتری لہ اے لوگو! مبشرات میں سے کچھ بھی باقی نہیں رہا، سوائے اچھے خواب کے جسے کوئی مسلمان دیکھتا ہے یا اسے دکھایا جاتا ہے۔ (صحیح مسلم: ۴۷۹، دارالسلام: ۱۰۷۴) دلیل نمبر 29:سیدنا ابو الطفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ کی سند سے سیدنا حذیفہ بن اسید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ذہبت النبوۃ فلا نبوۃ بعدي إلا المبشرات نبوت ختم ہو گئی ، پس میرے بعد کوئی نبوت نہیں، سوائے مبشرات کے۔ پوچھا گیا: مبشرات کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا: اچھا خواب جو آدمی دیکھتا ہے یا اسے دکھایا جاتا ہے۔ (المعجم الکبیر للطبرانی ۳/ ۱۷۹ ح ۳۰۵۱ وسندہ صحیح) نیز دیکھئے مجمع الزوائد (۷/ ۱۷۳) دلیل نمبر 30:سیدنا ابو الطفیل عامر بن واثلہ اللیثی الکنانی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے بعد کوئی نبوت نہیں، سوائے مبشرات کے... نیک خواب۔ (مسند احمد ۵/ ۴۵۴ح ۲۳۷۹۵ وسندہ صحیح) نیز دیکھئے موسوعہ حدیثیہ لمسند الامام احمد (۳۹/ ۲۱۳۔ ۲۱۴) دلیل نمبر 31:سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: لا یبقی بعدي من النبوۃ شؤ إلا المبشرات میرے بعد نبوت میں سے کوئی چیز باقی نہیں رہے گی، سوائے مبشرات کے۔ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ! مبشرات کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا: نیک خواب جسے آدمی دیکھتا ہے یا اسے دکھایا جاتا ہے۔ (مسند احمد ۶/ ۱۲۹ح ۲۴۹۷۷ وسندہ حسن، شعب الایمان للبیہقی : ۴۷۵۰، زوائد البزار: ۲۱۱۸) بطورِ فائدہ عرض ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پھر عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے تو اسے (دجال کو) قتل کریں گے، پھر عیسیٰ علیہ السلام عادل امام اور انصاف کرنے والے حکمران بن کر زمین میں چالیس سال رہیں گے۔ (مسند احمد ۶/ ۷۵ ح ۲۴۴۶۷ وسندہ حسن ، موسوعہ حدیثیہ ۴۱/ ۱۵۔۱۶، ویحییٰ بن ابی کثیر صرح بالسماع) دلیل نمبر 32:سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مثلي و مثل النبیین من قبلي کمثل رجل بنٰی دارًا فأتمھا إلا لبنۃ واحدۃ، فجئت أنا فأتممت تلک اللبنۃ میری اور مجھ سے پہلے نبیوں کی مثال اس آدمی کی طرح ہے جس نے ایک مکمل گھر بنایا ،سوائے ایک اینٹ کے۔ پس میں آگیا تو میں نے اس اینٹ (کی جگہ) کو مکمل کر دیا۔ (مسند احمد ۳/ ۹ ح ۱۱۰۶۷، صحیح مسلم : ۲۲/۲۲۸۶، دارالسلام: ۵۹۶۲، مصنف ابن ابی شیبہ ۱۱/ ۴۹۹ح ۳۱۷۶۰) فائدہ: صحیحین میں مدلسین کی معنعن روایات بھی سماع و متابعات معتبرہ پر محمول ہیں اور اس بات کو تلقی بالقبول حاصل ہے، لہٰذا صحیحین کی کسی حدیث پر تدلیس کا اعتراض صحیح نہیں بلکہ غلط ہے۔ والحمد للہ دلیل نمبر 33:سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: أنا أولی الناس بعیسی ابن مریم فی الأولٰی والآخرۃ میں دنیا اور آخرت میں عیسیٰ بن مریم کے سب سے زیادہ قریب ہوں۔ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ ﷺ یہ کیسے؟ آپ نے فرمایا: الأنبیاء اِخوۃ من علات و أمھاتھم شتی و دینھم واحد فلیس بیننا نبي انبیاء علاتی بھائی ہیں ، ان کی شریعتیں علیحدہ ہیں اور دین ایک ہے، پس ہمارے (میرے اور عیسیٰ کے) درمیان کوئی نبی نہیں۔ (صحیفہ ہمام: ۱۳۳، صحیح مسلم : ۲۳۶۵، دارالسلام: ۶۱۳۲) ایک روایت میں ہے کہ: ’’ولیس بیني و بین عیسی نبي.‘‘ اور میرے اور عیسیٰ کے درمیان کوئی نبی نہیں۔ (صحیح مسلم : ۱۴۴/ ۲۳۶۵، دارالسلام: ۶۱۳۱) اس حدیث سے دو باتیں صاف ثابت ہیں:
دلیل نمبر 34:سیدنا عرباض بن ساریہ السلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: إني عند اللہ لخاتم النبیین و إن آدم علیہ السلام لمنجدل فی طینتہ... میں اللہ کے ہاں (تقدیر میں) خاتم النبیین(آخری نبی) تھا اور آدم علیہ السلام اس وقت مٹی سے وجود میں نہیں آئے تھے۔ (مسند احمد ۴/۱۲۷ ح ۱۷۱۵۰ وسندہ حسن و أخطأ من ضعفہ ، صحیح ابن حبان، الاحسان: ۶۴۰۴، مستدرک الحاکم ۲/۶۰۰) دلیل نمبر 35:سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (سیدنا) علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: یا علي! أنت مني بمنزلۃ ھارون من موسی إلا أنہ لیس بعدي نبي اے علی! تمہارا میرے ساتھ وہی مقام ہے جو ہارون کا موسیٰ (علیہما السلام) سے تھا، لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ (خصائص علی للامام النسائی : ۶۳ وسندہ صحیح ) نیز دیکھئے مسند احمد (۶/ ۴۳۸) فضائل الصحابہ للامام احمد ( ۱۰۲۰) مصنف ابن ابی شیبہ (۱۲/۶۰) اور الآحاد والمثانی لابن ابی عاصم (۱۳۴۶) وغیرہ۔ دلیل نمبر 36:سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ألا ترضی أن تکون مني بمنزلۃ ھارون من موسی إلا أنہ لا نبي بعدي کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تمہارا میرے ساتھ وہ مقام ہو جو ہارون کا موسیٰ کے ساتھ تھا، سوائے یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ (حلیۃ الاولیاء ۷/۱۹۶ ، وسندہ صحیح) اس حدیث کے راوی عباس بن محمد المجاشعی رحمہ اللہ ثقہ تھے۔ رحمہ اللہ دلیل نمبر 37:سیدنا ابو قتیلہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے دوران، لوگوں میں کھڑے ہو کر فرمایا: لا نبي بعدي ولا أمۃ بعدکم میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی (دوسری) اُمت نہیں۔ ( الآحاد و المثانی لابن ابی عاصم ۵/ ۲۵۲ ح ۲۷۷۹) دلیل نمبر 38:سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے علی (رضی اللہ عنہ) سے فرمایا: کیا تم اس پر راضی نہیں کہ میرے ساتھ تمہارا وہی مقام ہو جو ہارون کا موسیٰ کے ساتھ تھا، سوائے یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ (کشف الاستار عن زوائد البزار ۳/ ۱۸۵ ح ۲۵۲۵ وسندہ حسن) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی دوسری حدیث کے لئے دیکھئے فقرہ سابقہ : ۲۸ دلیل نمبر 39:سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: بعثت أنا والساعۃ کھاتین میں اور قیامت ان دونوں ( انگلیوں) کی طرح (نزدیک نزدیک) بھیجے گئے ہیں۔ (صحیح بخاری : ۶۵۰۴، صحیح مسلم : ۲۹۵۱، دارالسلام: ۷۴۰۴) دو انگلیوں سے مراد سبابہ اور درمیانی انگلی ہیں۔ ( دیکھئے صحیح مسلم : ۷۴۰۵) اس حدیث کی تشریح میں حافظ ابن حبان نے فرمایا: ’’أراد بہ أني بعثت والساعۃ کالسبابۃ والوسطی من غیر أن یکون بیننا نبی آخر، لأني آخر الأنبیاء و علٰی أمتي تقوم الساعۃ.‘‘ اس حدیث سے آپ کی مراد یہ ہے کہ میں اور قیامت اس طرح مبعوث کئے گئے ہیں جس طرح سبابہ (شہادت والی انگلی) اور درمیانی انگلی ہیں، ہمارے درمیان دوسرا کوئی نبی نہیں،کیونکہ میں آخری نبی ہوں اور میری اُمت پر ہی قیامت قائم ہو گی۔ (صحیح ابن حبان، الاحسان ۱۵/ ۱۳ ح ۶۶۴۰، پرانا نسخہ: ۶۶۰۶) دلیل نمبر 40:عبد الرحمن بن آدم کی سند کے ساتھ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (تمام) انبیاء علاتی بھائی ہیں، ان کا دین ایک ہے اور ان کی مائیں (شریعتیں) جدا جدا ہیں اور لوگوں میں سب سے زیادہ میں عیسیٰ بن مریم کے نزدیک ہوں، کیونکہ میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے اور بے شک وہ نازل ہونے والے ہیں... الخ (مسند احمد ۲/۴۳۷ ح ۹۶۳۰ وسندہ صحیح، قتادہ صرح بالسماع، صحیح ابن حبان، الاحسان: ۶۷۸۲ والزیادۃ منہ) اصل مضمون کے لئے دیکھئے ماہنامہ الحدیث شمارہ 100 صفحہ 22 تا | ||
0 Comments